باسکٹ دیکھیں “ظہیر الدین بابر” آپ کے باسکٹ میں شامل کردی گئی ہے۔
ستاروں میں سوراخ
₹300.00
ستاروں میں سوراخ موضوع کے لحاظ سے ہندی اور اردو یا کسی بھی جنوبی ایشیائی زبان میں شاید بلکل انو کھانا ول ہے۔ اس کا مرکزی موضوع ہے امریکہ میں گن کلچر اور اور ماس شوٹنگ۔ ناول کے مرکزی کردار ہیں ہندوستانی نژاد مسلمین کور عرف جتی ، اس کے شوہر ہے اور اُن کی نوجوان بیٹی چنمیا عرف چنی۔
نیو یارک کے سب وے اسٹیشن میں کوئی شخص جے کی کنپٹی پر ریوالور رکھ کر انھیں لوٹ لیتا ہے۔ خوف، شک اور بے یقینی کی نفسیاتی کیفیت کا شکار ہو کر جے پستول رکھنے میں اپنی اور اپنے خاندان کی حفاظت دیکھتے ہیں۔ دوسری طرف چینی کے اسکول میں ماس شوٹنگ ہوتی ہے جس میں کئی بچے مر جاتے ہیں۔ گولی کا شکار ہونے والوں میں چٹی بھی ہو سکتی تھی۔ یہ خیال جنسی کے دل میں ہلچل مچادیتا ہے۔ اور شروع ہوتا ہے اُس کی اپنی شناخت اور وجود کی تلاش کا سلسلہ ۔ وہ ایک اسلحہ مخالف تنظیم کی سر گرم کارکن بن جاتی ہے۔ پھر تنظیم کے تحت تحریک کی ذمہ داریوں کا دور ۔۔۔ گن کلچر کے متعلق مطالعہ اور تحقیق، ڈھیلے گن قوانین اور اسلحے رکھنے کی آزادی اور ماس شوٹنگ کے سبب ہونے والی موتوں کے اعداد و شمار ، گن کلچر اور پدر شاہی ذہنیت کارشتہ ، عورتوں اور خصوصاً ماؤں اور بچوں پر گن کلچر کے اثرات، میٹنگیں، تقریریں، عوامی رابطے ، جلوس اور ریلیوں کی تیاری اور آخر کار ایک عظیم جلوس ۔ ضمنی طور پر یہ ناول کئی اور موضوعات کو چھوتا ہے۔ مثلاً ازدواجی رشتے کی ناہمواری اور پیچیدگی ، ہندوستانی نژاد والدین کی امریکہ میں پلنے بڑھنے والی نوجوان نسل کی سوچ اور اقدار کا فرق اور تصادم، تقسیم ہند کی تلخ یادیں، ہندوستانی اور پاکستانی ثقافت میں یگانگت اور دو ملکوں کے افراد کے احساسات اور جذبات میں قربت اور ہم آہنگی ، امریکی معاشرے میں نسل پرستی ، مادیت اور ظاہری چمک دمک کے پیچھے کی ٹوٹن اور تنہائی۔ میڈیا میں کام کرنے والوں کی تشدد کی خبروں کے تئیں بے حسی وغیرہ وغیرہ۔
غرضیکہ اس مختصر ناول میں اٹل پر بھا کمار نے ایک ایسا سنسار قید کیا ہے جو اردو قارئین کے لیے شاید بلکل نیا اور اچھوتا ہو ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ موضوع کی اس گوناگونی کے باوجو د ناول کو پڑھنے میں کسی رکاوٹ کا احساس نہیں ہوتا۔ اطلاعات بوجھ نہیں معلوم ہو تیں۔ اسلوب بے حد سادہ، رواں اور ہموار ہے۔ کتاب ہاتھ میں اٹھا لینے کے بعد ختم کیے بغیر رکھنے کو جی نہیں چاہتا۔ اند از بیان اتنا حساس، موثر اور دردمندانہ ہے کہ ناول کے شروع میں ہی آنکھیں بھیگنی شروع ہوتی ہیں تو پھر آخر تک خٹک نہیں ہوتیں۔