دیگر تفصیلات
Dekho Hum ne Kaise Basar Ki (Vol II)
by Jitender Billoo
جتیندربلو نے اپنی سوانح ’’دیکھو ہم نے کیسے بسرکی‘‘ ایک بالکل الگ انداز میں لکھنا شروع کی تھی۔ پیدائش سے لے کر اب تک کی ساری تفصیلات پیش کرنے کے بجائے اپنی زندگی کے اہم واقعات اور شخصیات کو موضوع بناکے انھوں نے اسے لکھنا شروع کیا۔یہ ایک دلچسپ انداز تھا۔ اس کا سب سے اچھا پہلو یہ تھاکہ زندگی میں گزری ہوئی بہت ساری غیرضروری تفصیلات سے وہ بہ آسانی بچ کے نکل گئے۔ اسی لیے اسے انھوں نے سوانحی کولاژ کا نام دیاتھا۔یہ ایک کامیاب تجربہ تھا اور لوگوں نے اسے پسند بھی کیا۔جتیندربلو نے اپنی سوانح ’’دیکھو ہم نے کیسے بسرکی‘‘ ایک بالکل الگ انداز میں لکھنا شروع کی تھی۔
پیدائش سے لے کر اب تک کی ساری تفصیلات پیش کرنے کے بجائے اپنی زندگی کے اہم واقعات اور شخصیات کو موضوع بناکے انھوں نے اسے لکھنا شروع کیا۔یہ ایک دلچسپ انداز تھا۔ اس کا سب سے اچھا پہلو یہ تھاکہ زندگی میں گزری ہوئی بہت ساری غیرضروری تفصیلات سے وہ بہ آسانی بچ کے نکل گئے۔ اسی لیے اسے انھوں نے سوانحی کولاژ کا نام دیاتھا۔یہ ایک کامیاب تجربہ تھا اور لوگوں نے اسے پسند بھی کیا۔ تخلیق کار کا ایک المیہ یہ ہے کہ وہ اپنی تخلیق پیش کرنے کے بعد کسی قدر مطمئن ہوجاتا ہے لیکن یہ اطمینان عارضی ہوتا ہے۔ کیوںکہ کچھ دنوں بعد ہی اس کے اندر کی بے چینی اور تڑپ پھر سے زندہ ہوجاتی ہے اور اسے محسوس ہوتا ہے کہ جو کچھ اس نے کہا ہے اس میں کچھ رہ گیا ہے جس کے سبب ایک تشنگی کا احساس باقی ہے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو یہ تخلیق کار کی موت ہے۔کیوںکہ یہی تشنگی اسے اپنی اگلی تخلیق تک لے جاتی ہے۔
بلو کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہوا۔ ان کی کتاب ’’دیکھوہم نے کیسے بسرکی‘‘ اگر صرف سوانح ہوتی تو شاید یہ معاملہ درپیش نہ آتااور انھیں اس کتاب کا دوسرا حصہ لکھنے کی ضرورت نہ پڑتی،کیوں کہ ساری تفصیلات بنیے کے کھاتے کی طرح اس میں مندرج ہوتی لیکن چوںکہ وہ بنیادی طور پر افسانہ نگار ہیں اور افسانے کے فنی تقاضوں کا بجاطور پر ادراک رکھتے ہیں اس لیے اس کتاب میں بھی ان کا افسانہ نگار ان سے الگ نہیں ہوسکا اور کتاب میںواقعات اور شخصیات کو ٹکڑوں میں یکجا کرنے کے سبب کچھ اہم لوگوں کا ذکر کرنے کے ساتھ ہی غیرشعوری طور پرکچھ اہم لوگ رہ بھی گئے۔ اس لیے اشاعت کے کچھ دنوں بعد ہی بلو نے محسوس کیا کہ ان کے ذکر کے بغیر بات مکمل نہیں ہوسکتی کیوں کہ وہ بھی کسی نہ کسی صورت ان کی زندگی میں اہمیت کے حامل رہے ہیںاس لیے انھوں نے اس کا دوسرا حصہ لکھنا شروع کیا جو قسط وار ’’نیاورق‘‘ میں چھپتا رہا اور اب کتابی شکل میں آپ کے سامنے ہے۔
الیاس شوقی